پشاور کے دوست فاؤنڈیشن کے ماہر نفسیات ڈاکٹر عماد رحمٰن
میں گزشتہ پانچ یا چھ برس سے پشاور میں بطور کلینکل سائیکلوجسٹ کام کررہا ہوں اور میرے پاس زیادہ تر نوجوان آتے ہیں جو ہیروئین یا افیون کے نشے کے عادی ہوتے ہیں۔
لیکن گزشتہ برس اکتوبر میں میرے پاس ایک ایسا نوجوان آیا جو کرسٹل میتھ یعنی آئس کا نشہ کرتا تھا، یہ میرے پاس آنے والا آئس کا پہلا کیس تھا۔
یہ 16 سالہ لڑکا مردان سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ میرے پاس آیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ رجسٹریشن آفس میں موجود تھا تو میں جھانک کر اسے دیکھ رہا تھا اور میں نے کافی دیر تک اس کے کمزور جسم کا جائزہ لیا۔ اس کا وزن 50 پاؤنڈز سے زیادہ نہیں تھا، وہ کافی گھبرایا ہوا تھا اور نشہ چھوڑنے کے بعد ظاہر ہونے والی علامات کو چھپانے کی کوشش کررہا تھا۔
مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اس وقت مجھے بھی اس نشے کے بارے میں زیادہ کچھ معلوم نہیں تھا۔
گھر واپس آکر میں نے فوراً انٹرنیٹ پر اس بارے میں جاننے کی کوشش کی لیکن مجھے زیادہ کچھ معلوم نہیں ہوسکا، پھر میں نے اپنے چند دوستوں کو فون کرکے پوچھا لیکن ان کی معلومات بھی اس حوالے سے محدود تھیں۔
اس حوالے سے کسی کو بھی زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ بالآخر میں اسلام آباد میں موجود اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا۔
جب اس لڑکے کے علاج کا ہفت وار سیشن شروع ہوا تو ابتداء میں وہ کافی ہچکچاہٹ کا شکار تھا اور اکثر اس کا رویہ بہت زیادہ جارحانہ ہوجاتا تھا۔
منشیات کے عادی افراد بحالی نو کے دوران غصہ کرتے ہیں اور اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں لیکن اس لڑکے کا جو رویہ تھا وہ میں نے اس سے قبل منشیات کے عادی کسی شخص میں نہیں دیکھا، وہ بہت شدید اور خوفناک تھا۔
جب کچھ سیشنز ہوگئے تو وہ لڑکا مجھ سے اور اپنے ارد گرد کے ماحول سے آشنا ہوگیا اور اس نے بات چیت شروع کردی۔ اس نے بتایا کہ تقریباً ایک برس قبل اس نے پہلی بار آئس کا نشہ کیا تھا۔
اس کے چاچا کا کوئی دوست ملائیشیا سے ان سے ملنے آیا تھا جس نے لڑکے کو بتایا کہ وہ ملائیشیا میں سیکیورٹی گارڈ ہے اور ڈیوٹی پر کافی دیر تک الرٹ رہنے اور جاگتے رہنے کے لیے وہ اکثر کرسٹل میتھ کو انجیکشن کے ذریعے استعمال کرتا ہے۔
اس ملاقات کے بعد لڑکے نے خیبر ایجنسی کے علاقے جمرود جانا شروع کردیا۔ وہ ہفتے میں تین بار جمرود جاتا تھا اور وہاں 3 سے 4 گرام منشیات لاتا تھا جسے وہ خود بھی استعمال کرتا تھا اور دوستوں کو بھی بیچتا تھا۔
جلد مجھے معلوم ہوگیا کہ آئس کے عادی افراد تنہائی پسند ہوجاتے ہیں۔ وہ لڑکا بھی کسی کے ساتھ گھلتا ملتا نہیں تھا اور صرف مجھ سے ہی بات کرتا تھا۔ اس کے علاج کے پہلے مرحلے کے دوران 70 فیصد کام دواؤں کے ذریعے کیا گیا جبکہ 20 فیصد علاج بذریعہ کاؤنسلنگ کیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شرح الٹی ہوگئی۔
آج اس نوجوان کا 90 دنوں پر محیط علاج مکمل ہوچکا ہے اور وہ جلد یہاں سے چلا جائے گا لیکن اس کے جانے کے بعد بھی میرا کام ختم نہیں ہوگا۔ اس لڑکے سے ملاقات کے بعد سے ہمارے مرکز پر آئس کا نشہ کرنے والے افراد کی آمد بتدریج بڑھ رہی ہے۔
پشاور میرا گھر ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں منشیات کا ایک نیا مسئلہ جنم لے رہا ہے۔
ملک کے بڑے شہروں میں بحالی نو کے مراکز اِس منشیات کے حد سے زیادہ استعمال یا اوور ڈوز سے متاثرہ مریضوں کا علاج کررہے ہیں، یہ مراکز انتہائی محتاط طریقے سے چلائے جارہے ہیں کیوں کہ انہیں یہاں آنے والے افراد کی شناخت کو بھی خفیہ رکھنا ہوتا ہے اور انہیں شرمندگی سے بچانا ہوتا ہے جبکہ یہ کافی مہنگے بھی ہیں۔
پشاور میں نجی کلینک چلانے والے ڈاکٹر خالد مفتی نے 2016 میں 200 سے زائد افراد کا علاج کیا جو کرسٹل میتھ کے عادی تھے اور ان کی عمریں 18 سے 30 برس کے درمیان تھیں۔ ان میں سے 18 فیصد نوجوان خواتین تھیں اور بعض تو اسلام آباد سے آئی تھیں۔
لاہور میں نجی بحالیِ نو مرکز کے روح رواں ڈاکٹر ندیم اشرف کہتے ہیں کہ ’’آئس ایک شیریں زہر کی مانند ہے، یہ پہلے آپ کی خود اعتمادی کو بڑھاتا ہے لیکن پھر آپ کے جسم کو کھاجاتا ہے اور اسے آہستہ آہستہ کمزور کردیتا ہے‘‘۔