Ice Age

پاکستان کا’آئس ایج‘: نوجوانوں کیلئے زہرقاتل

ملک میں منشیات کا ایک خطرناک اور عادی بنادینے والا مرکب ’آئس‘ آہستہ آہستہ ہمارے نوجوانوں کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے

دنیا بھر میں روزانہ حیران کن طور پر نشے کے عادی 685 افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، ان میں سے کتنے افراد کی ہلاکت ’میتھ ایمفٹامین‘ نامی خطرناک نشہ آور عنصر کے استعمال سے ہوتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے البتہ عادی بنادینے کی خصوصیت کا حامل یہ کیمائی مرکب انسان کو ذہنی و جسمانی طور پر تباہ کردیتا ہے۔

کرسٹل کی طرح نظر آنے والے ’’میتھ ایمفٹامین‘‘ کو عرفِ عام میں ’’آئس‘‘ یا ’’گلاس‘‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ مختلف سائز اور ہیئت کے ہوتے ہیں جنہیں نشے کے عادی افراد سگریٹ، ناک سے کھینچ کر اور انجیکشن کے ذریعے اپنے جسم میں داخل کرتے ہیں۔ یہ عنصر انسان کے مرکزی اعصابی نظام پر اثر کرتا ہے اور اس کے استعمال کے بعد طبیعت میں اچانک سے بہتری آنے کا احساس ہونے لگتا ہے، جسم میں طاقت سی آجاتی ہے اور انسان خود کو پراعتماد محسوس کرنے لگتا ہے۔

اس کیمیائی مرکب میں ’’ڈوپیمن‘‘ اور ’’سیوڈو ایفیڈرین‘‘ شامل ہوتے ہیں۔ جسم میں داخل ہونے کے بعد ڈوپیمن انسان کے دماغ میں خوشی کا جھوٹا احساس پیدا کرتا ہے جبکہ سیوڈوایفیڈرین جسے کھانسی کے شربت میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، یہ دماغ کو سکون پہنچاتا ہے۔ ان کے اثرات 6 سے 24 گھنٹے تک برقرار رہتے ہیں۔

اینٹی نارکوٹکس فورس کے مطابق پاکستان میں منشیات کا ایک شخص اوسطاً یومیہ 230 روپے اپنے نشے کو پورا کرنے کے لیے خرچ کرتا ہے اور چونکہ کرسٹل میتھ ایمفٹامین نسبتاً مہنگا ملتا ہے اس لیے اس کا استعمال معاشرے میں اس طبقے کے لوگوں میں زیادہ دیکھنے میں آتا ہے جو معاشی طور پر مستحکم ہیں۔

ایک کلو گرام آئس کی قیمت ساڑھے چھ لاکھ روپے سے 11 لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔ پشاور میں خالص ترین آئس کی فی گرام قیمت 8 ہزار روپے تک ہوسکتی ہے جبکہ مقامی طور پر تیار کی گئی آئس جسے ’’لاہوری آئس‘‘ کہتے ہیں، اس کی قیمت 1500 سے 2 ہزار روپے فی گرام ہوسکتی ہے۔

پاکستان میں زیادہ تر کرسٹل میتھ درآمد شدہ ہوتا ہے البتہ یہاں کچھ لیب موجود ہیں جو مقامی طور پر یہ مرکب تیار کرتے ہیں۔ 2015میں کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں قائم ایک میتھ لیب میں ہونے والے دھماکے کے بعد اینٹی نارکوٹکس فورس نے اس نشہ آور مرکب کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا تاہم اس کے بعد سے قانون نافذ کرنے والوں کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والی نشہ آور اشیاء یعنی ہیروئین، افیون اور حشیش کے مقابلے میں کرسٹل میتھ استعمال کرنے والے افراد کی تعداد نسبتاً کم ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ حکام کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ تاہم نیوز رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشہ آہستہ آہستہ ملک کی ’’شہری اشرافیہ‘‘ میں سرائیت کرتا جارہا ہے۔

رواں برس جنوری میں اینٹی نارکوٹکس فورس نے پشاور کے باچا خان ایئرپورٹ میں ایک مسافر سے 815 گرام کرسٹل میتھ برآمد کیا۔ پشاور پولیس کے مطابق گزشتہ چھ ماہ کے دوران آئس کی خرید و فروخت میں ملوث 37 افراد کو حراست میں لیا گیا لیکن چند روز جیل میں رکھنے کہ بعد انہیں رہا کرنا پڑا۔

پشاور کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) آپریشنز سجاد خان نے بتایا کہ ’’آئس ہمارے لیے ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے، ہمیں اس کی لین دین کرنے والے افراد کو چند روز بعد رہا کرنا پڑتا ہے کیوں کہ ان کے پاس اس مرکب کی انتہائی کم مقدار موجود ہوتی ہے اور بعض اوقات تو 10 گرام سے بھی کم‘‘۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے موجودہ قوانین کے مطابق منشیات فروش کو سزا دلوانے کے لیے ضروری ہے کہ پولیس اسے کم سے کم 100 گرام منشیات کے ساتھ پکڑے جبکہ کرسٹل میتھ کے ڈیلرز کو 50 گرام سے زیادہ مقدار ساتھ رکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ امید ہے ارکان پارلیمنٹ موجودہ قوانین میں ترمیم کرکے کرسٹل میتھ کو واضح طور پر غیر قانونی قرار دے دیں گے۔

ڈیلر

نشے کا عادی

ڈاکٹر